All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان کا سیاسی بحران اور فوج کا کردار.......شاہنواز فاروقی


کہا جاتا ہے کہ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور مطلق طاقت مطلق بدعنوانی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن یہ بات صرف سیاست دانوں کے بارے میں درست نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں درست ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے جرنیل ہیں۔ سیاست، سیاست دانوں کا شعبہ ہے لیکن پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو انگلی سیاست دانوں سے زیادہ جرنیلوں کی طرف اٹھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جرنیل سیاست دانوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جرنیلوں کی طاقت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ طاقت کے تمام مراکز پر قابض ہیں۔ پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز امریکہ ہے اور پاکستان کے جرنیل سیاست دانوں سے کہیں زیادہ امریکہ کے قریب ہیں۔ فوج پاکستان کی سب سے منظم قوت ہے اور فوج ہر وقت جرنیلوں کی مٹھی میں ہوتی ہے۔ فوج ملک کے بجٹ کا 40 فیصد خرچ کرتی ہے اور یہ رقم جرنیلوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ فوج ملک کا ایک بڑا کاروباری ادارہ ہے اور اس کاروباری ادارے کی باگ ڈور جرنیلوں کے پاس ہے۔ عدلیہ ملک کا اہم ادارہ ہے اور ملکی تاریخ کے ایک بڑے حصے میں عدلیہ پر جرنیلوں کا گہرا اثر رہا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اکثر سیاسی بحرانوں کے پیچھے جرنیلوں کا ہاتھ تلاش کیا جاتا ہے، اور اس تلاش میں جان کھپانے والے عام طور پر غلط ثابت نہیں ہوتے۔ اِس وقت بھی وطن عزیز میں یہی منظر ہے۔
پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی معمول کی بات ہے، البتہ سن 2013 کے انتخابات میں معمول کی بات اس لیے غیرمعمولی بن گئی کہ ملک کی کم و بیش تمام اہم جماعتوں نے انتخابی نتائج کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ عمران خان نے اس سلسلے میں دوسری جماعتوں سے زیادہ ردعمل ظاہر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 76 لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود زیادہ نشستیں نہ جیت سکے۔ چنانچہ ان کا احتجاج قابلِ فہم تھا اور یہ مطالبہ بھی کہ حکومت قومی اسمبلی کے کم از کم چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرائے۔ لیکن عمران خان نے اس مطالبے کو دیکھتے ہی دیکھتے حکومت گرانے کے منصوبے میں تبدیل کردیا۔ یہاں سے اُن کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا اظہار شروع ہوا۔ رہی سہی کسر اُن کے طاہر القادری کے ساتھ اتحاد اور اسلام آباد کے گھیرائو نے پوری کردی۔ اس سلسلے میں پورے ملک میں کانا پھوسی کا بازار گرم تھا۔ کہنے والے کہہ رہے تھے کہ عمران خان اور طاہرالقادری کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہے۔ کانا پھوسی کرنے والوں کے پاس کوئی شہادت نہیں تھی، لیکن جلد ہی شہادت خود چل کر لوگوں کے سامنے آگئی۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے کارکنان وزیراعظم سیکریٹریٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارات پر چڑھ دوڑے اور تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کھل کر سامنے آگئے۔

جاوید ہاشمی نے اپنے بیان کو ’’اندر کی کہانی‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جو کچھ کررہے ہیں جرنیلوں کے اشاروں پر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان انہیں بتاتے رہے ہیں کہ فوج 2014ء کے اگست یا ستمبر میں نئے انتخابات کرا دے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بعد جسٹس ناصرالملک سپریم کورٹ کے چیف بنیں گے جو ہمارے آدمی ہوں گے اور وہ نوازشریف اور شہبازشریف کی برطرفی کی راہ ہموار کریں گے۔ جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان اپنے کاندھوں کی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے کہ بیج والے کہتے ہیں کہ قادری کو ساتھ رکھو، اس کو ساتھ لے کر چلو۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے فیصلہ کیا تھاکہ ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے مگر شیخ رشید نے عمران خان کے کان میں آکر کچھ کہا اور عمران خان نے ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔ میں نے انہیں روکا تو انہوں نے کہا کہ مجبوری ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ ہرطرف کانا پھوسی ہورہی ہے کہ پانچ چھ جرنیل ریٹائر ہونے والے ہیں اور وہ نوازشریف کی حکومت کو گرانے کے لیے کام کررہے ہیں۔
جاوید ہاشمی کے یہ انکشافات دھماکا خیز ہیں اور انہوں نے ملک کی سیاسی فضا پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ تاہم جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہاہے عمران خان نے اس کی تردید کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ عمران خان اس کی تردید نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟ تاہم سوال یہ ہے کہ جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا وہ کس حد تک قابل اعتبار ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال دی جاسکتی ہے: اگر کوئی شخص بھارتی یا پاکستانی فلم دیکھ کر آئے اور کہے کہ فلم میں رومانس تھا، گانے تھے، مار دھاڑ تھی… تو اس کی بات پر اعتبار نہ کرنے کا کوئی جواز نہ ہوگا، اس لیے کہ پاکستان اور بھارت کی فلموں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ جاوید ہاشمی کے الزامات کا بھی ہے۔ انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو کچھ کہا ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ وہی کچھ کرتی رہی ہے۔ جاوید ہاشمی کے مجموعی طرزعمل کا جائزہ لیا جائے تو کہا جائے گا کہ اُن کے بیان میں برجستگی تھی، فطری بہائو تھا، سادگی تھی اور کسی بھی موقع پر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ کوئی من گھڑت بات کہہ رہے ہیں۔ البتہ اُن کے بیان سے یہ ضرور ظاہر ہوا کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ اس کو یاد رکھنے کے لیے کوشاں تھے اور انہیں معلوم تھا کہ کسی موقع پر وہ یہ ساری باتیں طشت ازبام کردیں گے۔ 

اس طرح کے مواقع پر دیکھنے کی ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا اسے اپنے کہے کا کیا فائدہ ہوگا؟ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو جاوید ہاشمی کی پوزیشن بہتر ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جاوید ہاشمی نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے تھے اور اُن کے واپس نواز لیگ میں جانے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جاوید ہاشمی کو سیاست سے جو فائدے اٹھانے تھے وہ اٹھائے جاچکے، اور عمر کے اس حصے میں ان کا کوئی فائدہ ان کے پیش نظر نہیں ہوگا۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاسی بحران میں فوج کے کردار کے حوالے سے جاوید ہاشمی کا بیان ہی اہم ہے؟
ایسا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں آئی ایس پی آر نے جو دو پریس ریلیز جاری کیے ہیں وہ بھی فوج اور جرنیلوں کے خلاف گئے ہیں۔

 حکومت نے ڈیڑھ ہفتے بعد دھرنا دینے والوں کے خلاف طاقت استعمال کی تو آئی ایس پی آر نے اپنے پریس ریلیز میں مشورہ دیا کہ معاملات کو جلد از جلد باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ میاں نوازشریف عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ دل سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے، تاہم دبائو کے تحت وہ بہرحال اپنے حریفوں سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں۔ تاہم عمران خان اور طاہر القادری مذاکرات سے کھیل رہے ہیں اور حکومت کے سامنے ایسی شرائط رکھ رہے ہیں جو حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جلد از جلد مذاکرات کے سلسلے میں سارا دبائو حکومت کی جانب منتقل ہوجاتا ہے اور آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں شعوری طور پر اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ جلد از جلد مذاکرات کا سارا دبائو حکومت پر آجائے۔ طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ بھی صائب ہے بشرطیکہ یہ مشورہ دونوں فریقوں کو دیا جاتا۔ لیکن آئی ایس پی آر نے یہاں بھی سارا بوجھ حکومت پر ڈال دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایس پی آر کی دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف ایک پریس ریلیز سے متعلق نہیں۔

جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد آئی ایس پی آر نے جو پریس ریلیز جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے اور اسے سیاست میں گھسیٹنا بدقسمتی کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک بڑے سیاسی بحران میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے؟ کیا اس بیان میں جرنیلوں کے دل کا چور کلام کرتا نظر آرہا ہے؟ تجزیہ کیا جائے تو اس بات کے ذریعے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے قوم کے طویل مشاہدے‘ تجربے اور علم کی توہین کی ہے۔ آخر ایک ایسے ملک میں فوج کو غیر سیاسی ادارہ کیسے کہا جاسکتا ہے جہاں فوج چار بار اقتدار میں آچکی ہو؟ بدقسمتی سے اس کے اقتدار کی مدت بھی کم نہیں۔ فوج کا اقتدار قوم کی تاریخ کے 34 سال ہڑپ کرچکا ہے مگر آئی ایس پی آر کا ترجمان کہہ رہا ہے کہ فوج ایک غیرسیاسی ادارہ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ادارہ ملک کی تاریخ کے بارے میں اتنی بڑی غلط بیانی کررہا ہے اُس کی اس بات میں کتنی صداقت ہوگی کہ فوج موجودہ بحران میں کسی کی پشت پناہی نہیں کررہی اور اس حوالے سے فوج کو سیاست میں گھسیٹنا بدقسمتی ہے۔ یہ امر بھی قوم کے سامنے ہے کہ موجودہ بحران میں فوج نے اسلام آباد کی مختلف عمارتوں کو ریاست کی علامت قرار دیا اور کہا کہ وہ ہر قیمت پر ان کا دفاع کرے گی۔

 لیکن جب مظاہرین وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک حصے اور پی ٹی وی کے مرکز پر حملہ آور ہوئے تو فوج ان عمارتوں کے دفاع کے لیے موجود نہ تھی۔ یہاں تک کہ فوج پی ٹی وی سے حملہ آوروں کو نکالنے آئی تو اس نے ان میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی ریاست کی علامتوں کا تحفظ ہے؟ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر مظاہرین فوج کی چھائونی یا فوج کے کسی اور مرکز پر حملہ کرتے تو کیا فوج پھر بھی وہی کرتی جو اس نے پی ایم سیکریٹریٹ اور پی ٹی وی پر حملے کے حوالے سے کیا؟ فوج کے اسی کردار نے محمود خان اچکزئی کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ یہ کیسے مظاہرین ہیں جو پولیس کو مارتے ہیں اور فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں؟ اس منظرنامے میں میاں نوازشریف کے لیے سانس لینے کے کئی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال جرنیلوں اور عمران خان کی حماقت کا نتیجہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف ایک سول ڈکٹیٹر ہیں اور ہمارے جرنیل ملٹری ڈکٹیٹر۔ اس صورت حال کا مفہوم واضح ہے۔ قوم سول اور ملٹری ڈکٹیٹرز کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔

شاہنواز فاروقی

Post a Comment

0 Comments