All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

انقلاب فرانس سے ڈی چوک تک.....


  اگست کو لاہور سے نکلنے والے ہجوم میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ یہ خواتین آزادی و انقلاب مارچ کا حصہ تھیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، لاہور سے اسلام آباد پہنچنے کے بعد مردوں کے ساتھ ان ہزاروں خواتین کو بھی سخت موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ موسلا دھار بارش، سخت گرمی، نامساعد حالات میں یہ ہزاروں خواتین جن میں ایک بڑی تعداد نوجوان لڑکیوں کی بھی ہے انتہائی منظم انداز میں ایک ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

پارلیمنٹ کے سامنے سے انھیں ہٹانے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اس سے جہاں کچھ لوگ جاں بحق ہوئے وہیں لوگ شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس خوفناک تشدد کی فضا میں جہاں آنسو گیس کے شیلوں کی بارش ہو رہی تھی خواتین کی پریشانی کا سبب وہ بچیاں تھیں جو اس بھگڈر میں بچھڑ گئی تھیں۔ مائیں اپنی بچھڑی ہوئی بچیوں کو ڈھونڈ رہی تھیں اور پنجاب پولیس ان پر بارش کی طرح آنسو گیس کے شیل برسا رہی تھی۔

موسلا دھار بارش جھلسا دینے والی دھوپ آنسو گیس کے گولوں کی بارش اور بھوک کی شدت کے باوجود مردوں کے ساتھ یہ ہزاروں خواتین اب تک ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ کون سا جذبہ ہے جس نے انھیں ان شدید مشکلات کے باوجود روکے رکھا؟ وہ نہ صرف ڈی چوک میں موجود ہیں بلکہ اپنی ثابت قدمی اپنی جرأت اپنی استقامت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بھنگڑا بھی ڈال رہی ہیں۔ رقص بھی کر رہی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بنا کر پارلیمنٹ کے اندر پناہ لیے جمہوریت پسندوں کو بتا رہی ہیں کہ فتح آخر کار حق اور انصاف کی ہو گی۔

حیرت ہے کہ جبہ و دستار سے آوازیں آ رہی ہیں کہ یہ عورتیں ہماری اخلاقی زندگی کو تباہ کر رہی ہیں یہ ناچ رہی ہیں یہ گا رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان خواتین کی جرأت اور بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جاتا لیکن الٹا ان کے خلاف الزامات لگا رہے ہیں۔
آج سے 225 سال پہلے کے فرانسیسی عوام کو بھی ایسے ہی ظالموں کا سامنا تھا جس قسم کے ظالموں کا پاکستان کے غریب عوام کو 67 سال سے سامنا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں اصلاحی تحریک کی کامیابی کے بعد یورپ میں کلیسائی نظام کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن کلیسائی نظام کے بعد یورپ میں جو مطلق العنان بادشاہتیں قائم ہو گئیں ان کے خلاف عوام میں بے چینی بڑھنے لگی بادشاہتوں کے محافظ اور لوٹ مار میں بادشاہوں کے اتحادی امرا اور جاگیرداروں کے مظالم انتہا کو پہنچ چکے تھے ٹیکسوں کی بھرمار روٹی سے محرومی کا عالم یہ تھا کہ فرانس کے احتجاجی عوام سڑکوں پر ’’روٹی سستی کرو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ملکہ کہہ رہی تھیں کہ روٹی نہیں ملتی تو عوام کیک کیوں نہیں کھاتے۔ بادشاہوں کی مطلق العنانی کا عالم یہ تھا کہ عدالتی عہدے کھلے عام فروخت ہوتے تھے۔

بادشاہوں کی مطلق العنانی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے اس نام نہاد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی 1614ء کے بعد 1789ء تک یعنی 175 سال تک بلانے کی زحمت نہیں کی۔ جب 1789ء میں عوام سڑکوں پر نکل آئے تو 175 سال بعد اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ اسمبلی کو اس طرح تشکیل دیا گیا تھا کہ اس کے کل 1214 ارکان میں امرا اور جاگیرداروں کی تعداد 285 تھی۔ پادریوں کی تعداد 308 اور عوامی نمایندوں کی تعداد تو 621 تھی لیکن فیصلے کثرت رائے کے بجائے طبقاتی اکثریت پر کیے جاتے تھے۔

یعنی امرا اور پادری جس فیصلے کو منظور کرتے وہی فیصلہ مسلط کر دیا جاتا، عوام اپنی اکثریت کے باوجود فیصلے کرنے سے معذور تھے۔ اس پارلیمانی دھاندلی کے خلاف عوام ڈٹ گئے اور بادشاہ کی محکوم پارلیمنٹ کے خلاف عوام کی اسمبلی بلائی بادشاہ نے اس اسمبلی کو روکنے کے لیے اسمبلی کے دروازے بند کرا دیے۔ عوام نے ایک ٹینس کورٹ میں اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ عوام نے 9 جولائی 1789ء کو عوامی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی بنانے کا اعلان کر دیا۔

بادشاہ لوئی ملکہ میری انتوینت سازشوں میں مصروف رہے 14 جولائی 1789ء کو یہ افواہ پھیلی کہ سرکاری فوجیں ’’باغیوں‘‘ پر حملہ کرنے کے لیے آ رہی ہیں۔ عوام سرکاری فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مورچہ بند ہوگئے لیکن پتا چلا کہ جو فوجیں آ رہی ہیں وہ بادشاہ سے بغاوت کر کے عوام کا ساتھ دینے آ رہی ہیں ۔یہ خبر انقلابیوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری بن گئی اور عوام نے فوج کا بھرپور استقبال کیا۔ 14 جولائی کو عوام گروہ درگروہ سڑکوں پر نکل آئے جن میں خواتین بہت بڑی تعداد میں شامل تھیں۔

اس دور میں فرانس میں Bastille بیستل کا قلعہ ہمارے لاہور کے قلعے کی طرح مشہور تھا اس قلعے میں سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد مقید ہونے کی افواہ تھی۔ مظاہرین کا رخ بیستل کی طرف ہو گیا۔ انھوں نے بیستل پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ بیستل کی حفاظت پر معمور فوج کو قتل کر دیا گیا۔ 14 جولائی کا یوم آزادی امریکا کے 4 جولائی 1776ء کی طرح فرانس کی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ بیستل کی فتح کی خبر جب فرانس کے کسانوں کو پہنچی تو انھوں نے جاگیرداروں اور امرا کی بستیوں کا رخ کیا اور فرانس کی سڑکیں جاگیرداروں اور امرا کے خون سے سرخ ہو گئیں۔

16 جولائی کو پیرس کے بھوکے عوام جن کی قیادت خواتین کر رہی تھیں، روٹی کی قلت اور مہنگائی کے خلاف ملکہ ماری انتوینت کے محل کی طرف چل پڑیں، خواتین نے ملکہ کے محل کا محاصرہ کرلیا اور محل کے اندر گھس گئیں۔ عوام کی طاقت سے خوفزدہ بادشاہ نے اپنی کٹھ پتلی اسمبلی سے ایک قانون پاس کرالیا جس کے ذریعے مظاہروں کو روکنے کے لیے مسلح طاقت استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس قانون سے عوام خوفزدہ ہونے کے بجائے اور مشتعل ہوگئے اور سارا فرانس اس انقلاب فرانس کی طرف آ گیا ۔ اس انقلاب کی ایک کمزوری یہ تھی کہ نہ اس کی کوئی نظریاتی قیادت موجود تھی نہ اہداف متعین تھے جس کی وجہ سے یہ انقلاب وہ نتائج حاصل نہ کرسکا جو اتنے بڑے انقلاب کا نتیجہ ہوسکتے تھے۔

  اگست سے شروع ہونے والی اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس تحریک نے ملک کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اس میں ذرہ برابر ابہام موجود نہیں کہ 14 اگست سے شروع ہونے والی اس تحریک کو ملک کی خاموش اکثریت کی مکمل حمایت حاصل ہے لیکن وہ اس تحریک میں عملاً اس لیے شریک نہیں کہ انھیں باہر لانے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی، اس تحریک کو ملک کے تمام شہروں تک اسی طرح وسیع کرنے کی ضرورت تھی جس طرح 1968ء اور 1977ء میں کی گئی تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ کیا جا سکا جس کی وجہ یہ احتجاج ڈی چوک تک محدود رہا اور وہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہا ہے جو حاصل ہونا چاہیے تھے۔

سرکار دربار کی طرف سے اپنے مڈل کلاس مجاہدین کے ساتھ مل کر یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ سب ایک ڈراما ہے اور تیسری قوت اس ڈرامے کی ڈائریکٹر ہے اگر تیسری قوت اس ڈرامے کی ڈائریکٹر ہوتی تو نہ اب تک یہ ڈراما جاری رہتا نہ حکمران بار بار تیسری قوت کی خدمت میں حاضر ہو کر دھرنوں سے نجات دلانے کی درخواستیں کرتے۔ اگر بہ فرض یہ کسی اور کا اسکرپٹ ہے بھی تو اس اسکرپٹ کی وجہ سے ملک میں 67 سال سے مسلط اشرافیہ کی چولیں ہل گئی ہیں۔

طبقاتی تضادات اور واضح ہو گئے ہیں اور اگر دھرنے والے اپنے اہم مطالبات منوا لیتے ہیں تو حقیقی تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہیں۔ ڈی چوک اگرچہ تحریر اسکوائر بھی نہ بن سکا لیکن ڈی چوک میں بیٹھی ہوئی بہادر خواتین فرانس کے قلعہ بیستل کی فاتح خواتین سے کم جرأت مند نہیں۔

ظہیر اختر 
بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس






 

Post a Comment

0 Comments