All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سبق جو نیلسن منڈیلا کی زندگی سے سیکھے جاسکتے ہیں...

تحقیق بتاتی ہے کہ زیادتی پر دوسروں کو معاف کرنے والے لمبی زندگی پاتے ہیں۔یہ بات پرکھنے کے لئے یقینا سب سے پہلے نیلسن منڈیلاہی کو دیکھا جائے گاجنھوں نے95 برس زندگی بسر کی۔
سن1990ء میں جب وہ رہاہوئے تو اگلے سارے برسوں میں انھوں نے اپنے مخالفین سے انتقام لینے کا راستہ اختیارنہ کیا، حالانکہ اخلاقی اور قانونی طورپر اپنے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کراسکتے تھے، انھیں سزائیں دلاسکتے تھے۔ سفید سامراج نے منڈیلااور ان کے ہزاروں، لاکھوں سیاہ فام ساتھیوں کو جبر، وحشت کی جن بھٹیوں سے گزارا، ان کا تقاضا تھا کہ اس ظلم کا حساب لیاجاتا۔تاہم نیلسن منڈیلا نے سامراج کی شکست ہی کو کافی سمجھاجوانھوں نے کئی عشروں کی جدوجہد کے بعد دی تھی۔ اب وہ اپنی ساری توجہ جنوبی افریقہ کی تعمیر نو پر مرکوز کرناچاہتے تھے۔ انھوں نے اگلا ایک ایک پَل بکھری ہوئی قوم کو متحد کرنے میںلگادیا۔ درگزر کرنا، نیلسن منڈیلا کا یہ پہلا سبق ہے جو ایک فرد ان سے سیکھ سکتا ہے۔
دوسرا سبق، درگزرکرنے کا مطلب ظلم سہنابھی نہیں ہوتا بلکہ مسلسل جدوجہد کے ذریعے ظالم کو بری شکست سے دوچارکرو، جب تک منزل مل نہیں جاتی، ظلم پر کاری ضربیں لگاتے چلے جاؤ۔ یہ وہ عملی سبق ہے جو نیلسن منڈیلا کی ساری زندگی سے ملتاہے۔ انھوں نے یہ سبق ان عظیم افریقی محب وطن انسانوں کی کہانیوں سے سیکھا جومغربی استعمار کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ نیلسن سکول میں تھے، جب انھوں نے افریقی تاریخ کے مطالعے میں خصوصی دلچسپی لینا شروع کردی،اسی دوران اساتذہ اور بڑوں سے سفیدفام حکمرانوں کے مظالم اور امتیاز کی داستانیں بھی سنیں۔

سولہ برس کی عمر میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیاگیا جہاں ایک قبائلی سردار نے ایسی تقریرکی جسے نیلسن کبھی فراموش نہ کر پائے۔ سردار نے کہا’’ ہم ژہوسا اور سارے جنوبی افریقی ایک مفتوح قوم ہیں، ہم اپنے ہی ملک میں غلام ہیں، ہم اپنی ہی زمین پر مزارعے ہیں، ہمارے پاس کوئی قوت ، کوئی طاقت نہیں، اپنی جنم بھومی میں ہمیں اپنی قسمت پر کوئی اختیار نہیں۔۔
یہ سفید آدمی کی کانوں میں بنی سرنگوں کے اندر رہنے سے اپنی صحت تباہ کرلیں گے اور سورج کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان نوجوانوں میں ایسے سردار ہیں جو کبھی حکومت نہیں کریں گے، ایسے سپاہی ہیں جو کبھی نہیں لڑیں گے، ایسے عالم فاضل ہیں جو کبھی تعلیم نہیں دیں گے۔ ان نوجوانوں کی فطری صلاحیتیں اس لئے رائیگاں جاتی ہیں کہ ہم انھیں سب سے بڑا تحفہ نہیں دیتے اور یہ تحفہ ہے آزادی اور حریت کا۔ ژہوساقوم کے پھول مررہے ہیں‘‘۔ قبائلی سردار نوجوانوں میں بغاوت کا بیج بورہاتھا، نیلسن نے اس بیج کو لمبے عرصے کیلئے ذہن کی زمین میں پڑا رہنے دیا، جو بالآخر زمین کا سینہ پھاڑ کر کونپل کی صورت میں باہرنکلا ، پودے کی صورت اختیارکی اور پھر ایک مضبوط درخت بن گیا۔

ایک روز قبیلے کے سردار نے نیلسن کو بلاکرآگاہ کیاکہ وہ اب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا اس لئے میں تمہاری شادی کرنے والا ہوں۔ نیلسن کو مقامی پادری(جو ہم قبیلہ ہی تھا) کی بیٹی سے بیاہا جاناتھا۔ سردار نے اسی طرح اپنے بڑے بیٹے جسٹس کو بھی بلایا، اسے بھی شادی کیلئے تیارہونے کو کہا۔ نیلسن اور سردار کا بیٹا دونوں اچھے دوست بھی تھے۔ نیلسن کیلئے جو لڑکی منتخب کی گئی تھی، وہ اس کے خوابوں کی دلہن تھی،اس کا خاندان سرکردہ اور معززتھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی سردار کے بیٹے جسٹس ( نیلسن کے دوست)سے محبت کرتی تھی۔

چنانچہ نیلسن نے سردار کی بیوی سے کہاکہ وہ اس شادی پر راضی نہیں ، بلکہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتاہے۔ دوسری طرف جسٹس بھی فوراً شادی کیلئے راضی نہیں تھا۔ یہ بھی مشکل تھا کہ سردار ان دونوں لڑکوں کا انکار سن سکے چنانچہ دونوں لڑکے گھر سے بھاگ نکلے اور سیدھا دارالحکومت جوہانسبرگ پہنچ گئے۔ پہلے سونے کی ایک کان میں مزدوری کی، بعدازاں ایک قانونی فرم میں کلرکی مل گئی۔ یہاں شروع میں کام ابتدائی نوعیت کا تھا ، کاغذات ڈھونڈنا، ترتیب دینا، انھیں فائل کرنا اور جوہانسبرگ میں کہیں نہ کہیں پہنچاکرآنا۔ بعدازاں فرم کے بعض افریقی موکلان کے کاغذات تیارکرنا شروع کردئیے۔

یہاں ملازمت کرتے ہوئے ایک کمیونسٹ سے اٹھنا بیٹھنا ہوگیا، کمیونزم سے کسی قدر متاثر بھی ہوئے لیکن کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہ ہوئے کیونکہ انھیں قانونی فرم کے مالک نے کسی بھی سیاسی جماعت کاحصہ بننے سے روک دیاتھا۔ اس دوران الیگزینڈرا نام کے ایک نواحی علاقے میں رہنا پڑا جو صرف سیاہ فاموں کیلئے قائم کیاگیاتھا۔ یہاں ایک جہنم زار تھا، جہاں کے باسیوں کی زندگی میں کوئی سہولت نہیں تھی، بس! مسائل ہی مسائل تھے۔

نیلسن کی مالی حالت خطرناک حد تک خراب تھی۔ لاء فرم سے دو پونڈ ماہانہ ملتے تھے۔ ایک پونڈ خوراک پر خرچ ہوجاتا جبکہ باقی میں سے 13شلنگ 4پنس کمرے کے کرائے میں اٹھ جاتے تھے، یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ سے گریجویشن کی کلاسز میں داخلہ لیا ہوا تھا، اس کی فیس بھی ادا کرنا ہوتی تھی، یہاں آنے کیلئے سستاترین ذریعہ افریقیوں کے مخصوص ایک بس تھی ۔ نیلسن کو کئی روز تک بس کا کرایہ بچانے کیلئے صبح شام چھ میل پیدل چلناپڑتاتھا۔ کئی کئی روز چندلقمے خوراک کے سوا کچھ کھانے کی استطاعت نہ ہوتی، پہننے کیلئے کپڑے بھی کم تھے۔

ایک گورے نے اپنا پرانا سوٹ دیاجسے رفو کرکے پانچ سال تک روزانہ پہننا پڑا۔بالآخر وہ بھی پیوندوں سے بھر گیا۔ ایک روز ایک صاف ستھرا شخص بے دھیانی سے نیلسن کے ساتھ بس میں بیٹھ گیا، جب اچانک اس کی حالت پر نظرپڑی تو فوراً دور ہوکے بیٹھ گیا، اسے ڈرتھا کہ نیلسن کی پرانی جیکٹ اس کے کوٹ کو داغدارکردے گی۔ صاف ستھرے شخص کی یہ معمولی سی حرکت نیلسن کیلئے سخت تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ انہی دنوں گریجویشن کرلی۔ سند ملنے کی تقریب میں ادھار کا سوٹ لے کر شرکت کی۔ بعدازاں ایک دوسری یونیورسٹی میں وکالت کی سند لینے کیلئے داخلہ لے لیا۔ نیلسن فیکلٹی میں واحد سیاہ فام تھا۔

انھی دنوں نیلسن نے افریقن نیشنل کانگریس کے جلسوں میں شرکت کرنا شروع کردی، کیونکہ منڈیلا پر پوری طرح واضح ہوگیا کہ سفید فام سیاہ فاموں کو ’کافر‘ سمجھتے ہیں ۔اس دوران منڈیلا اور کچھ دیگر نوجوان اس نتیجے پر پہنچے کہ افریقن نیشنل کانگریس کا ایک یوتھ ونگ بھی ہونا چاہئے، وہ اے این سی کے بڑوں سے ملے، انھیں قائل کیا۔بالآخر1944ء میں افریقن نیشنل کانگریس یوتھ لیگ قائم ہوگئی۔ کمیونسٹ بھی اے این سی کی تحریک کی حمایت کررہے تھے۔ ان کا اپنا ایجنڈہ تھا۔ وہ اسے کمیونزم کی تحریک میں بدلناچاہتے تھے تاہم منڈیلا سمیت اے این سی کے تمام قائدین نے کمیونزم کو واضح طورپر مستردکردیا۔
اسی سال اے این سی کی ایک کارکن ایویلائن میسی سے شادی کرلی۔ اس کا باپ ایک کان کن تھا جو ایویلائن کی شیرخوارگی ہی میں آنجہانی ہوگیاتھا۔ جب وہ 12برس کی ہوئی تو ماں بھی چل بسی۔ نیلسن اور ایویلائن پہلے دلہن کے رشتہ داروں کے ہاں مقیم رہے ، بعدازاں الگ کرائے کا گھر لینے پر قادر ہوگئے۔ یہاں منڈیلا نے اپنی والدہ اور بہن کو بھی ساتھ رہنے کیلئے بلالیا۔ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں ’’ یہ میرا پہلا اپنا گھرتھا، مجھے اس پر بے حد فخر تھا۔ اب میں دوسرے لوگوں کے گھروں میں مہمان بن کرجانے کے بجائے دوسروں کو اپنے ہاں مہمان بنانے کے قابل ہوگیاتھا۔‘‘

سن1946ء میں بہت سے ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے نیلسن منڈیلا کے سیاسی شعور کے ارتقااور جدوجہدِ آزادی میں اہم ترین کردار اداکیا۔ ایک ریف کے علاقے میںکان کنوں کی ہڑتال تھی جس میں 70000افریقی کان کنوں نے حصہ لیا۔ ہڑتال کی کامیابی نے نیلسن منڈیلا کو بہت متاثر کیا۔ ریف میں چارلاکھ افریقی کارکن کام کرتے تھے، ان میں اکثر کو دوشلنگ سے زیادہ دیہاڑی نہیں ملتی تھی۔ ان کی یونین کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اجرت 10شلنگ روزانہ مقرر کی جائے نیز خاندان کیلئے رہائش اور دو ہفتے کی چھٹی (تنخواہ کے ساتھ) بھی دی جائے۔تاہم یہ مطالبات نظر انداز کردئیے گئے۔

یہ ملکی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا کہ سترہزار کان کن ایک ہفتے تک ہڑتال پر رہے۔وہ سب ایک تھے۔ بے رحمی کے ساتھ اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی گئی، لیڈر گرفتار کئے گئے، ایک احتجاجی مارچ بھی ہوناتھا لیکن پولیس نے وحشیانہ تشدد سے ناکام بنادیا جس میں دس کان کن مارے گئے۔ ہندوستانیوں نے بھی اپنے حقوق کی خاطر سول نافرمانی کی ایک تحریک چلائی، ان کی تحریک اس نوعیت کا احتجاج بن گئی جیسی یوتھ لیگ والے مدت سے چاہ رہے تھے۔ نیلسن منڈیلا کہا کرتے تھے کہ انھوں نے ہمیں یاددلایا کہ آزادی کی جدوجہد صرف تقریریں، جلسے کرنے ، قراردادیں منظور کرنے اور وفود بھیجنے سے عبارت نہیں بلکہ یہ تو صبرآزما تنظیم، جنگجویانہ عوامی عمل اور سب سے بڑھ کر ابتلاء اور قربانی کیلئے تیار ہونے کا نام ہے‘‘۔

 منڈیلا کو اے این سی کی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کرلیاگیا۔ یہ پارٹی میں پہلی باقاعدہ ذمہ داری تھی۔ بقول منڈیلا’’ یہ میری تنظیمی زندگی میںایک اہم موڑ تھا۔ اس وقت تک تحریک آزادی کیلئے میری قربانیاں زیادہ سے زیادہ یہی تھیں کہ میں ویک اینڈز کے دوران اپنی بیوی اور خاندان سے دور رہتاتھا اور شام کو دیر سے گھر لوٹتاتھا۔ میں کسی بڑی مہم میں براہ راست شامل نہیں ہوتاتھا‘‘۔
1949ء میں اے این سی کی قیادت نے ایک غیررسمی اور تاریخی راہ اختیارکی۔ اس نے خود کو ایک خالص عوامی تنظیم میں ڈھالنے کی نمایاں کوشش شروع کردی۔ یوتھ لیگ نے بھی پروگرام آف ایکشن وضع کرلیا جس کا اہم نکتہ عوامی بیداری کی مہم تھا۔اس کے تحت بائیکاٹ، ہڑتالوں، کام پر نہ جانے ، احتجاجی مظاہروں اور عوامی ایکشن کی دیگرصورتوں پر عمل پیرا ہونے کی اپیل کی گئی۔ یوتھ ونگ کے پروگرام کو اے این سی کے صدر ڈاکٹر زوما کی حمایت حاصل نہیں تھی، وہ اس طرح کی سرگرمیوں کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں سمجھتے تھے چنانچہ وہ پارٹی کے اندر نوجوان طبقہ کی حمایت سے محروم ہوگئے اور انھیں صدارت سے فارغ کردیاگیا۔ نئے صدر جیمز موروکا سخت گیر تھے، وہ سیسیولو کے اہم ترین ساتھی تھے۔1951ء میں نیلسن منڈیلا کو یوتھ لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا۔

 نیلسن منڈیلا پہلی بار گرفتار ہوئے، انھیں جے ایس موروکا ، والٹر سیسیولو سمیت اے این سی کے دیگر 17رہنماؤں کے ساتھ نوماہ قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ان پر سپریشن آف کمیونزم ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیاتھا۔ بعدازاں قید کی سزا میں توسیع دی جاتی رہی حتیٰ کہ دوبرس بعد انھیں رہائی نصیب ہوئی۔ اسی سال انھیں اے این سی کا نائب صدر منتخب کرلیاگیا۔

انھوں نے اے این سی کے مستقبل کے خفیہ آپریشنز کی منصوبہ بندی کی، اسے ’’ایم پلان‘‘کہاجاتاہے۔اس کا تصور یہ تھا کہ ایک ایسی تنظیمی مشینری قائم کی جائے جو اے این سی کو اعلیٰ ترین سطح پر ایسے فیصلے کرنے کا موقع فراہم کرے جو اجلاس بلائے بغیر پوری تنظیم تک تیزی سے پہنچائے جاسکیں۔’ ایم پلان‘ کی رو سے تنظیم نئے ارکان بھرتی کرسکتی تھی، مقامی اور قومی مسائل پر رائے دے سکتی تھی اور ارکان، زیرزمین قیادت کے مابین باقاعدہ رابطہ برقراررکھ سکتی تھی۔ یہ منصوبہ کلی طورپر نہیں بلکہ جزوی طورپر کامیاب ہوسکا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں اے این سی کے تمام ارکان بظاہر اپنے اپنے دھندوں میں مصروف نظرآنے لگے۔ منڈیلا بھی ایک کلی وقتی وکیل بن گئے۔ اگست1952ء میں انھوں نے اپنا لاء آفس کھول لیا۔

اس دوران انھیں نسلی امتیاز پر مبنی کچھ انتہائی تلخ تجربات سے گزرنا پڑا، جنھوں نے انھیں باغی بنادیا۔ ان کے بقول’’ جنوبی افریقہ میں ایک افریقی ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی پیدائش کے لمحے سے سیاست زدہ ہے، خواہ وہ اسے تسلیم کرے یا نہ کرے۔ ایک افریقی بچہ جس ہسپتال میں پیدا ہوتا ہے اس کے گیٹ پر لکھا ہوتا ہے۔ ’’صرف افریقیوں کیلئے‘‘ ، اور وہ جس بس میں گھر آتا ہے، جس علاقے میں رہتا ہے اور جس سکول میں پڑھتا ہے اگر اسے سکول میں داخل کرایا جاتا ہے تو ان سب پر ’’صرف افریقیوں کیلئے‘‘ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے۔
جب وہ بڑا ہوتا ہے تو ’’صرف افریقیوں کیلئے‘‘ مخصوص کام کرسکتا ہے۔ ’’صرف افریقیوں کیلئے‘‘ٹاؤن شپ میں مکان کرائے پر لے سکتا ہے۔ ’’صرف افریقیوں کیلئے‘‘ ریل گاڑی میں سوار ہوسکتا ہے اور اسے دن یا رات کے کسی وقت بھی روکا جاسکتا ہے اور پاس دکھانے کا حکم دیا جاسکتا ہے جس کے بغیر اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔

نسل پرستانہ قوانین و ضوابط اس کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں جو اس کی افزائش کو روک دیتے ہیں، اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگا تے ہیں اور اس کی زندگی کا ستیا ناس کرتے ہیں۔ یہ تھی حقیقت جوہزاروں طریقوں سے اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی تھی۔ نیلسن نے اپنی آپ بیتی میں لکھا’’مجھے کوئی اشارہ غیبی نہیں ہوا تھابلکہ ہزار سسکیوں، ہزار اہانتوں اور ہزار یاد نہ رہنے والے لمحات نے مل جل کر میرے اندر ایک غصہ، ایک بغاوت اور اس نظام کے خلاف لڑنے کی خواہش پیدا کردی تھی جس نے میری قوم کو غلام بنا رکھا تھا‘‘۔

نیلسن منڈیلاجدوجہد آزادی کے دوران کسی بھی مرحلے پر نرم حکمت عملی اختیارکرنے کے قائل نہیں رہے۔ وہ بار بار اپنے ساتھی قائدین کو قائل کرتے رہے کہ ٹھنڈی مزاحمت کا دور ختم ہوگیا ہے۔ عدم تشدد اب بیکار شے ہے اور اس سے گوری اقلیت کا تختہ نہیں الٹا جاسکتا جو ہر قیمت پر اقتدار اپنے پاس رکھنے پر تلی ہوئی ہے۔ آخر میں تشدد ہی واحد ہتھیار ہے جو نسلی امتیاز کا خاتمہ کرے گا اور مستقبل قریب میں یہ ہتھیار استعمال کرنے کیلئے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔
عدم تشدد پر مبنی غیر متحرک مزاحمت اس وقت تک موثر ہوتی ہے جب تک آپ کا حریف انہی اصولوں کی پابندی کرے جن پر آپ کاربند ہوں لیکن اگر پرامن احتجاج کا جواب تشدد سے ملے تو اس کی تاثیری قوت ختم ہوجاتی ہے۔ عدم تشدد ایک اخلاقی اصول نہیں بلکہ ایک سٹرٹیجی تھا۔ ایک غیر موثر ہتھیار استعمال کرنے میں کوئی اخلاقی اچھائی نہیں ہوتی‘‘۔ سن1956ء میں نیلسن منڈیلا ایک بار پھرقیدکرلئے گئے۔ ان کے ساتھ مزید155افراد بھی شامل تھے، ان پر الزام لگایاگیا کہ وہ صریح بغاوت اور ملک گیرسازش کے مرتکب ہوئے تھے تاکہ تشدد سے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ کر ایک کمیونسٹ مملکت قائم کرسکیں۔ان ڈیڑھ سو افراد کو عدالت میں موجود ایک پنجرے میں بٹھایاجاتاتھا۔حکومت عدالت میں ان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی چنانچہ انھیں چوتھے روز ہی ضمانت پر رہاکردیاگیا۔

اسی دوران منڈیلااور ایویلین کے شادی کمزور پڑنے لگی۔ اس میں منڈیلا کی سیاسی اور ان کی اہلیہ کی پیشہ وارانہ مصروفیات آڑے آئیں۔ ایویلین جنرل نرسنگ میں اپنے چارسالہ سرٹیفکیٹ کو اپ گریڈ کرنے میں جت گئی، اس نے ڈربن میں کنگ ایڈورڈ ہفتم ہسپتال میں مڈوائفری کورس میں داخلہ لے لیا جس کے باعث اسے کئی ماہ تک گھر سے باہر رہناپڑا۔ساتھ ہی وہ عیسائی مشنری سرگرمیوں میں مزید شامل ہوگئی۔ اب وہ کل وقتی مبلغہ تھی اور منڈیلا کو سیاست چھوڑ کر خدا سے تعلق مضبوط کرنے کے مشورے دیتی تھی۔

اس کے گمان میں کہیں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ منڈیلا کا صبح سے رات گئے تک مصروف رہنا دراصل کسی دوسری خاتون کی وجہ سے ہے۔منڈیلا بار بار وضاحت کرتے کہ وہ فلاں فلاں میٹنگ میں تھے تاہم ایویلین کو یقین نہ تھا۔ 1955ء میں ایویلین نے منڈیلا سے کہا کہ وہ اسے چن لے یا پھر اے این سی کو۔ دسمبر1956ء میں جب منڈیلا ایک بارپھر گرفتار ہوئے تو ایویلین بچوں اور گھر کے تمام تر سامان کے ساتھ چلی گئی۔ منڈیلا کو شادی کے ٹوٹنے کا بہت دکھ تھا۔
اس کے بعد انھوں نے ایک سکول پرنسپل کی بیٹی ونی سے شادی کرلی، بعدازاں ونی نے بھی جدوجہد آزادی میں بھرپور کردار اداکرنا شروع کردیا۔ وہ اس قدر پرجوش اور سرگرم تھی کہ خود منڈیلا بھی خوفزدہ ہوگئے۔ ان کاخیال تھا کہ اس کی جدوجہد کہیں ازدواجی زندگی کیلئے خطرناک ثابت نہ ہو۔تاہم ان کے یہ خدشات ونی کی راہ نہ روک سکے۔ ونی اور اے این سی کی خواتین نے تحریک کو شعلہ جوالہ میں بدل دیا۔

مارچ1960ء میںایک دردناک واقعہ پیش آیا۔ شارپ ویل میں سیکورٹی فورسز نے ایک مظاہرے میں شریک 69 سیاہ فاموں کو گولیوں سے بھون ڈالا جبکہ 400سے زائد زخمی ہوئے۔اس قتل عام نے تحریک کو پوری دنیا میں پھیلادیا، دنیا بھر کے اخبارات نے اس درندگی کی تصاویر صفحہ اول پر شائع کیں۔ جنوبی افریقہ کے اندر بھی بدترین بحران پیدا ہوگیا۔ اس واقعہ نے تحریک آزادی کو ایک ہی دن میں برسوں کی پیش رفت عطاکی۔ سیاہ فاموں نے اپنے شناختی پاس اجتماعی اندازمیں جلاناشروع کردئیے۔

تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی تو منڈیلا کو ایک بارپھر گرفتارکرلیاگیا۔انھیں ایک ایسی کوٹھڑی میں بندکردیاگیا جس کے فرش میں اجابت کیلئے بس ایک سوراخ تھا جہاں سے وہ گٹر میں بہادی جاتی تھی ۔ اجابت کا سوراخ باربار بند ہوجاتاتھا جس کے نتیجے میں کوٹھڑی میں ناقابل برداشت صورت حال پیدا ہوجاتی۔ پھر انھیں ایسے کمبل دئیے گئے جو خشک خون اور قے سے بھرے ہوئے تھے اور جن پر جوئیں، کیڑے اور لال بیگ رینگ رہے تھے، ان سے گندے نالے کی طرح بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔

منڈیلا اور ان کے ساتھیوں پر طویل مقدمہ چلا تاہم فیصلہ دیتے ہوئے جج نے لکھا  استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہاہے کہ اے این سی ایک کمیونسٹ تنظیم ہے۔ یہ کہہ کر جج نے تمام قیدیوں کو بری کرنے کا حکم دیدیا۔ رہائی کے بعد نیلسن منڈیلا اپنے گھر نہیں گئے بلکہ وہ ایک ایسی مخلوق کا حصہ بن گئے جو اندھیرا چھاجانے کے بعد نمودار ہوتی تھی۔ان کی سرگرمیوں کا مرکز جوہانسبرگ ہی رہا تاہم جب خطرہ زیادہ محسوس کرتے تو کسی دوسرے علاقے کی طرف جانکلتے۔حکومت کسی بھی قیمت پر نیلسن منڈیلا کو گرفتار کرناچاہتی تھی لیکن وہ بھیس بدل بدل کراپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہے تھے۔ انھیں گرفتارکرنے کیلئے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی جاتیں، ان کیلئے کوڈورڈ’’ کالاجنگلی‘‘ استعمال ہوتا۔تاہم حکومت ایک عرصہ تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکی۔

اس دوران منڈیلا نے زیرزمین رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک کا خفیہ دورہ کیا۔ کیپ ٹاؤن کے مسلمانوں، نٹال کے شوگرورکرز اور پورٹ الزبتھ کے فیکٹری ورکرز سے ملاقاتیں کیں۔متعدد بار منڈیلا پولیس والوں کے عین درمیان میں ہوتے تھے لیکن اہلکار ’’کالے جنگلی‘‘ کی موجودگی سے بے خبر رہتے۔ایک بارایک پولیس اہلکارنے پہچان لیا، منڈیلا کویقین ہوگیاکہ گرفتاری کا لمحہ آن پہنچا لیکن اہلکار نے انھیں آنکھ کے اشارے سے نکل جانے کا اشارہ کردیا۔اس طرح کے بہت سے واقعات رونما ہوئے ، پولیس اہلکاروں کو اپنا طرفدار پاکر منڈیلا کا عزم وہمت کئی گنا زیادہ بڑھ گیا۔ایک سیاہ فام اہلکار ونی کو پولیس کے تمام تر منصوبوں کی خبردیتارہا۔بعدازاں اے این سی مسلح جدوجہد کی قائل ہوگئی۔ یادرہے کہ منڈیلا شروع دن سے اس حکمت عملی کے حامی تھے۔اب MKکے نام سے ایک مسلح تنظیم قائم کی گئی، نیزہ علامتی نشان تھا جبکہ اس کی تمام تر ذمہ داری منڈیلا کے کندھوں پر ڈال دی گئی۔

اگلے مہینوں میںمنڈیلا نے دنیا بھر کی گوریلاتحریکوں کی تاریخ ، ان کی حکمت عملی اور طورطریقوں کا مطالعہ کیا۔ ملک میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے مکمل تیاری کی گئی حتیٰ کہ تجربات بھی کئے گئے۔ پہلا تجرباتی دھماکہ اینٹوں کے ایک بھٹے پر کیا گیا ، اس کے نتیجے میں زمین پر بہت بڑا گڑھا پڑگیا، یہ تجربہ کامیاب قرار پایا۔منڈیلا کہتے ہیں’’MK‘‘کی حکمت عملی یہ تھی کہ فوجی تنصیبات، پاورپلانٹس، ٹیلی فون لائنوں اور مواصلاتی رابطوں پر دھاوے بولے جائیں‘‘۔ حکومت نے پہلے پہل گوریلاحملوں کو سنجیدگی سے نہ لیا۔
تاہم پھریہ اس کیلئے وبال جان بن گئے۔ حکومت نے اے این سی کو غیرقانونی قرار دے کر پابندی عائد کردی۔اس دوران منڈیلا نے ایتھوپیا سے الجزائر تک دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ واپسی پر جنوبی افریقہ میں خفیہ طورپرداخل ہوتے ہوئے گرفتار ہوسکتے تھے اگرپولیس اہلکار انھیں نکل جانے کو نہ کہہ دیتا۔ جنوبی افریقہ واپس پہنچ کر ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں شروع کردیں تاہم پھر 5اگست1962ء کو ونی اور بچوں سے ملنے کیلئے جاتے ہوئے دھر لئے گئے۔اسی دوران ان پر مزید مقدمات بھی قائم کئے گئے۔

کہاجاتاہے کہ ان کی مخبری ایک امریکی سفارت کار نے کی تھی۔قریباً دوبرس تک مقدمہ چلا جس کے بعد انھیں عمرقیدکی سزا سناکر جزیرہ روبن میں قیدکردیاگیا۔ یہاں انھیں1982ء تک رکھاگیا۔
اس دوران اے این سی کی گوریلاکارروائیاں جاری رہیں جس نے جنوبی افریقن حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔1982ء میں منڈیلا کو کیپ کی جیل میں منتقل کردیاگیا۔ ساتھ ہی حکومت نے اے این سی کے ساتھ مختلف چینلز کے ذریعے مذاکرات شروع کردئیے، 1989ء میں پہلے صدر بوتھا اور بعدازاں صدرایف ڈبلیو ڈی کلارک نے نیلسن منڈیلا سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں خبریں آئیں کہ حکومت اور منڈیلا کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں چنانچہ گیارہ فروری1990ء کو انھیں رہاکردیاگیا۔ اگلے برس منڈیلا اے این سی کے صدرمنتخب ہوئے،1993ء میں انھیںنوبل امن انعام دیاگیا۔1994ء میں ملک میں پہلی بار سیاہ فاموں کو برابری کا درجہ دے کر انتخابات منعقد کرائے گئے جن میں منڈیلا کو قوم نے بھاری اکثریت سے ملک کا صدر منتخب کرلیا۔

وہ اگلے پانچ برسوں تک ایوان صدر میں رہے۔ یوں انھوں نے جدیدامریکی کلچر کے اس نظریہ کو غلط ثابت کردیا کہ اگرآپ تیس برس کی عمر تک کروڑپتی اور چالیس برس تک سینیٹر نہیں بنتے تو سمجھ لو کہ زندگی نے تمہیں روند ڈالا ہے۔منڈیلا 76برس کی عمر میں ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بنے۔ حالانکہ یہ ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے لیکن وہ اکیاسی برس کی عمر تک یہ بھاری بھرکم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، انھوں نے وطن کی ازسرنوتعمیر اور ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ انھوں نے پوری دنیا کے باسیوں کو یہ سبق دیا کہ جب سماج میں بڑی تبدیلی پیدا کرکے انصاف کا نظام قائم کرنے اور اپنے ملک کو دنیا کی بہترین جگہ بنانے کا جذبہ ہوتو عمرکو خاطر میں نہیں لایاجاتا۔

چوتھا سبق یہ دیا کہ اچھے رہنما اچھے وقتوں میں ابھرسکتے ہیں لیکن عظیم رہنما ہمیشہ برے وقتوں میں ہی نمودار ہوتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہوگاکہ بہت سے نام نہاد لیڈرز عظیم الشان مظاہروں کی قیادت کرتے ہیں، بڑے بڑے میڈیا چینلز کو انٹرویوز دیتے ہیں اور اپنے مداحوں کو اپنی تقریروں سے مسحور کردیتے ہیں لیکن کم ہی رہنماایسے ہوتے ہیں جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر لوگوں کو اپنا مداح بناتے ہیں اور انھیں انقلاب کے لئے تیار کرتے ہیں، ایسے رہنماؤں میں وہ لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں کہ جو قریب تین عشرے جیل میں بسرکریں۔ نیلسن منڈیلا ان گنے چنے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔عموماً ایسا ہوتاہے کہ جب کرشماتی رہنما قیادت سے دور ہوجائے تو تحریک تقسیم کا شکار ہوجاتی ہیں۔ تاہم منڈیلا کی صلاحیتیں ایسی شاندارتھیں کہ ان جیل میں جانے کے باوجود تحریک کاسفر اپنے اہداف کی طرف تیزی سے جاری رہا۔

نیلسن منڈیلانے پانچواں سبق یہ دیا کہ تحریک اہم ہوتی ہے ، فرد نہیں۔ یہ ان کی شاندار صلاحیت تھی کہ انھوں نے یقینی بنایاکہ وہ جیل میں ہوں یا پھر اس دنیاہی سے چلے جائیں، ان کی تحریک اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ منڈیلا جیل میں گئے تو تحریک چلتی رہی، وہ ایوان صدر سے گئے تو ان کا تعمیر وترقی وطن کا پروگرام جاری رہا،ان کے ساتھی تھابومبیکی اور جیکب زوما کے ادوار صدارت میں اصلاحات اورترقی کے اعدادوشمار کودیکھنے سے اس بات کا اندازہ ہوجاتاہے۔ یارہے کہ منڈیلا کے جانشین صدر تھابومبیکی تھے جبکہ ان کے جانشین جیکب زوما اب بھی ایوان صدرمیں ہیں۔ اب نیلسن منڈیلا دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن جنوبی افریقی قوم اپنا سفرجاری رکھنے میں پرجوش دکھائی دیتی ہے۔

بچپن سے جوانی کی کہانی

’رولہلاہلا‘ پیدائشی نام تھا، مقامی افریقی زبان ژہوسا کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں’’ مصیبت کھڑی کرنے والا‘‘۔ نام کے شخصیت پراثرات ہوتے ہیں۔ رولہلاہلا نے واقعتاً مصیبت کھڑی کردی تھی ان انسانوں کیلئے جو انسانوں کو اپنی بدترین غلامی میں قید رکھناچاہتے تھے۔ جنوبی افریقہ کے ضلع ’امتایا‘ میں دریائے امباشے کے کنارے واقع چھوٹے سے گاؤں مویزو میں ان کی پیدائش ہوئی۔ والد گادلا ہنری نیسوا نسلی اور رسمی اعتبار سے گاؤں کے سردار تھے۔ اگرچہ کسی افریقی علاقے کی سرداری ایک اہم منصب کا حامل ہوتا تھا لیکن سفید فاموں نے اسے رسمی بنادیاتھا۔

وہ ایک لمبے قد اور گہرے نقوش والے سخت مزاج شخص تھے، بچوں کو نظم وضبط کی تعلیم دیتے ہوئے ڈنڈے کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔ بہت سے دوسرے افریقی سرداروں کی طرح ان پڑھ نہیں تھے، علم وادب سے خاصا شغف رکھنے والے عمدہ مقرر تھے۔ ان کی چار بیویاں تھیں، رولہلاہلاکی والدہ تیسری تھیں۔ چاروں بیویوں کے الگ الگ کرال (فارم) تھے جہاں عموماً مویشیوں کیلئے سادہ باڑ والا احاطہ، فصلیں اگانے کیلئے کھیت اور گھاس پھونس کی ایک دو جھونپڑیاں ہوتی تھیں۔ سب بیویوں کے کرال ایک دوسرے سے میلوں دور تھے، گادلا ہنری باری باری سب کے ہاں قیام کرتے۔ ان کی کل تیرہ بچے تھے،چار بیٹے اور نو بیٹیاں۔ نیلسن سب سے چھوٹے بیٹے اور تین سگی بہنوں کے بھائی تھے۔
رولہلاہلا شیرخوارگی ہی کی عمر میں تھے کہ والد ایک جھگڑے میں ملوث ہوکرگاؤں کی سرداری سے محروم ہوگئے۔ اب یہ خاندان تنگدستی کاشکارہوگیا۔رولہلاہلاکی والدہ اپنے گاؤں میں چلی گئیں، جہاں زندگی سہولیات سے عاری تھی۔ اس واقعے سے گادلا ہنری اکھڑ اور مغرور شخص بن گئے، باغیانہ روش ان کی شخصیت میں اترآئی، اور وہ اپنی روش درست ہونے کے ضدآمیز احساس میں مبتلاہوگئے۔ آنے والے برسون میں رولہلاہلابھی کچھ ایسا ہی ہوگیا۔

رولہلاہلا کا گاؤں سرسبز پہاڑیوں میں گھری ہوئی،گھاس سے اٹی ہوئی ایک تنگ وادی میں واقع تھا جہاں ہرطرف شفاف ندیوں کا شور ہردم سنائی دیتاتھا۔ گاؤں بیسیوں جھونپڑوں پر مشتمل تھا جن میں رہنے والوں کی تعداد چند سو تھی۔ انہی جھونپڑوں میں سے ایک میں رولہلاہلا اپنی تین بہنوں اور ماں کے ساتھ پل بڑھ رہاتھا۔ یہ لوگ چٹائیوں پر سوتے اور زمین پر بیٹھتے تھے… کھانے میں زیادہ تر مکئی یااس سے بنی ہوئی خوراک ہوتی تھی۔ رولہلاہلا پانچ برس کے تھے کہ بھیڑوں اور بچھڑوں کی دیکھ بھال پر لگادیئے گئے،گاؤں کے دیگرلڑکوں کی طرح اپنے پورے جسم کو ایک کمبل سے کسی قدر ڈھانپتے تھے۔ جب انھیں سکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیاگیاتو انھیں بتانا پڑاتھا کہ اب اسے ایک مناسب لباس پہننا ہوگا۔ چنانچہ باپ نے ایک پاجامہ لیا، اسے گھٹنوں تک چھوٹا کرکے پہننے کا حکم دیا۔ رولہلاہلاسکول پہنچا تو ایک مس نے اسے نیا نام ’نیلسن‘ دیا۔برطانوی نوآبادیاتی میں یہ انگریزی نام رکھنا ضروری تھا۔

نیلسن نوبرس کے تھے ، ایک رات اپنے جھونپڑے میں سوئے ہوئے تھے کہ گھر میں ہلچل سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ دراصل والد اپنے معمول کے مطابق ہفت روزہ قیام کیلئے آن پہنچے تھے لیکن ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی، مسلسل کھانس رہے تھے، اسی کھانسی کی حالت میں تمباکو مانگ رہے تھے ، بیوی نے پہلے سمجھایا کہ انھیں اس حالت میں تمباکو نہیں پینا چاہئے۔تاہم ضد کرنے پر انھیں فراہم کردیاگیا۔ اسی رات پچھلے پہر وہ چل بسے۔ والد کے انتقال نے بیٹے کی پوری زندگی بدل دی۔ ماں نے نیلسن کوقبیلے کے ایک بڑے کے ہاں بھیج دیا۔

اب زندگی امخی کیزوینی نام کے اس قصبے میں گزرنے لگی تھی جسے علاقے کا ایک شہر قراردیاجاتاتھا۔ یہاں رہ کر سکول کی تعلیم بھی شروع ہوگئی۔آنے والے برسوں میں نیلسن کو ایک بڑے شہرکے ایک بورڈنگ سکول میں پڑھنے کیلئے بھیج دیاگیا۔ بعدازاں مزید تعلیم کیلئے ہیلڈٹاؤن میں جانا پڑا۔ ایک سنگ میل فورٹ ہیسئر بھی تھا جہاں حصول تعلیم کے دوران نیلسن نے پہلی بار پتلون پہنی تھی اور پہلی بار ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ استعمال کی تھی۔ پہلی بار بہتے پانی والے ٹائلٹس اور گرم پانی کے شاورز سے واسطہ پڑا۔ پہلی بار نہانے کیلئے خوشبودار صابن استعمال کیا۔ پرنسپل کے ساتھ ایک جھگڑے کے نتیجے میں نیلسن کوامخی کیزوینی واپسی کی راہ لینا پڑی۔

عبید اللہ عابد

Post a Comment

0 Comments