All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کتب خانے اور ہم - شاہنواز فاروقی

مسلمانوں کی تہذیب ”الکتاب“ کی تہذیب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے بہترین زمانوں میں نہ صرف یہ کہ لاکھوں کتب تخلیق کیں بلکہ انہوں نے اپنے گھروں اور بستیوں کو بھی کتب خانے سے آباد کیا۔

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے گھر کا تصور کتب خانے کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہر گھر میں کم یا زیادہ‘ مگر کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے شہر مثلاً بغداد‘ غرناطہ‘ قرطبہ اور دہلی اور چیزوں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کے لیے بھی مشہور تھے۔ تاتاریوں نے جب بغداد کو تاراج کیا تو انہوں نے بغداد کے مرکزی کتب خانے کو تباہ کردیا اور اس کی ساری کتابیں دجلہ میں بہا دیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ بغداد کے کتب خانے میںکتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی کئی ہفتوں تک سیاسی مائل رہا۔

مگر اقبال کے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال ہوگئی تھی کہ اقبال نے شکایت کرتے ہوئے کہا 

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

اقبال کی اس شکایت کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی تخلیقی لہر کمزور پڑ گئی ہے اور وہ کتابیں تخلیق کرنے والوں کے بجائے صرف کتابیِں پڑھنے والے بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن ہمارے دور میں مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ مسلمان کتابیں تخلیق کرنے والے کیا کتابیں پڑھنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ چنانچہ ان کے گھروں اور بستیوں سے کتب خانے اور ان کا حسن و جمال اور ان کی معنویت بھی رخصت ہوگئی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم دس لاکھ‘ بیس لاکھ‘ پچاس لاکھ‘ ایک کروڑ‘ دو کروڑ اور پانچ کروڑ کے گھر خریدتے ہیں‘ ان مین دنیا کی کئی کئی مہنگی گاڑیاں رکھتے ہیں‘ دنیا کے جدید ترین آلات ہمارے گھروں کی زینت ہوتے ہیں‘ ہمارے ڈرائنگ رومز پر لاکھوں اور بسا اوقات کروڑ روپے صرف کردیے جاتے ہیں مگر ہمارے گھروں میں ایک چھوٹے سے کتب خانہ کی لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری روح‘ ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں موجود ہوتا ہے مگر کتب خانے کے لیے ہمارے وجود میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ نہ ہماری روح میں ہوتا ہے نہ ہمارے دل میں اور نہ ہمارے ذہن میں۔ چنانچہ کتب خانہ ہمارے گھروں میں موجود نہیں ہوتا۔

پاکستان میں کتب خانوں کا معاملہ کتنا سنگین ہوچکا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بِڑا‘ سب سے جدید اور سب سے امیر شہر ہے۔ اس کی آبادی ڈیڑھ پونے دو کروڑ بتائی جاتی ہے مگر اتنے بڑے شہر میں ایک بھی ایسا کتب خانہ نہیں جہاں سے کتاب گھر کے لیے جاری کرائی جاسکے۔

حکیم محمد سعید بڑے علم پرور تھے اور انہوں نے مدینة الحکمت کے نام سے ایک بڑا کتب خانہ بھی قائم کیا مگر مدینة الحکمت اصل کراچی سے اتنی دور واقع ہے کہ وہاں جانے کا خیال تک انسان کو تھکا دیتا ہے۔ شہر میں آٹھ دس یقینا بڑے کتب خانے موجود ہیں مگر ان سے استفادے کے لیے کتب خانہ جانا اور وہیں بیٹھ کر کتاب پڑھنا ضروری ہے اور یہ کام کوئی ریٹائرڈ شخص ہی کرسکتا ہے۔

عام آدمی کی ضرورت ایسے کتب خانے ہیں جہاں سے وہ پندرہ بیس دن یا ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے کئی کتابیں جاری کراکے گھر لاسکے اور انہیں گھر پر اپنی سہولت کے مطابق پڑھ سکے۔ لیکن ڈیڑھ پونے دو کروڑ کی آبادی میں ایک کتاب خانہ بھی ایسا نہیں اور اگر کہیں کوئی ایسا کتاب خانہ موجود بھی ہوگا تو وہ کسی مخصوص علاقے میں ہوگا اور اس کی اطلاع کتابوں کے شوقین عام افراد کو نہیں ہے۔

کتب خانوں کے کلچر کے خاتمے نے معاشرے کے افراد کو کتاب اور کتب خانے سے کتنا دور کردیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کے جن طبقات کو کتاب اور کتاب خانے سے سب سے زیادہ قریب ہونا چاہیے وہ کتاب اور کتب خانہ سے اتنا ہی دور کھڑے ہیں۔

ہم جب جامعہ کراچی کے شعبہ ¿ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے تو ہمیں ایک بار جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری پر ایک رپورٹ کرنے کا ”اسائنمنٹ“ ملا۔ ہم لائبریرین کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ کا آپ کے کتب خانے سے کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے کہ جامعہ کے پچاس‘ ساٹھ فیصد اساتذہ کبھی بھی لائبریری نہیں آتے‘ بیس سے پچیس فیصد اساتذہ لائبریری سے کتب جاری کراتے ہیں مگر انہیں کئی کئی سال تک واپس نہیں کرتے جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کتابیں تو لے جاتے ہیں مگر ان سے استفادہ نہیں کرتے۔

 البتہ پانچ سے دس فیصد اساتذہ ایسے ہیں جو پابندی سے لائبریری آتے ہیں‘ کئی کئی کتابیں جاری کراتے ہیں‘ انہیں وقت مقررہ پر واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پرانی کتب کی جگہ نئی کتب جاری کراکے لے جاتے ہیں۔ ہمیں ایک بار جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کے تہہ خانہ یا  میں جانے کا اتفاق ہوا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں ہزاروں کتب دھول میں اٹی پڑی ہیں اورانہیں گزشتہ پندرہ بیس سال میں کسی نے بھی مطالعے کے لیے طلب نہیں کیا۔

صحافیوں کو اطلاعات کے سمندر میں غوطہ زن گروہ خیال کیا جاتا ہے لیکن عامل صحافیوں کی اکثریت وہ اخبار بھی پورا نہیں پڑھتی جس میں وہ کام کرتی ہے۔ رپورٹر حضرات کا عام طور پریہ حال ہے کہ کرائم رپورٹرز اخبارات میں صرف کرائم کی خبریں پڑھتے ہیں۔ اسپورٹس رپورٹرز صرف کھیلوں کی خبروں کا ”مطالعہ“ فرماتے ہیں۔ تجارت و صنعت کے شعبوں میں کام کرنے والے صرف تجارت و صنعت سے متعلق اطلاعات سے غرض رکھتے ہیں اور سیاسی زندگی کو رپورٹ کرنے والے صرف سیاسی خبروں کے مطالعے کا ”ذوق و شوق“ رکھتے ہیں۔

ہمیں بارہا کراچی پریس کلب کی لائبریری جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہم نے اسے یا تو خالی پایا یا یہ دیکھا کہ دو چار صحافی بیٹھے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کررہے ہیں۔ شاعروں کی عظیم اکثریت کے بارے میں ہمارا بیس پچیس سال کا مشاہدہ اور تجربہ یہ

بتاتا ہے کہ وہ صرف شاعری پڑھتے ہیں‘ ادب کی دیگر اصناف مثلاً افسانہ یا ناول اور تنقید یا دیگر فنون مثلاً فلسفے‘ نفسیات اور عمرانیات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ ان علوم کے مطالعے کو اپنی شاعری کے لیے ”خطرہ“ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے سنجیدہ مطالعے کا رخ کیا تو وہ شعر کہنے کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔ ان کا شعور اور لاشعورمطالعے کے ”بوجھ“ میں ”دب“ کر رہ جائے گا۔ شاعری کے میدان میں ایک عمر صرف کرنے کے باوجود انہیں یہ معلوم نہیں کہ بڑی شاعری ”بڑے تجربے“ اور ”بڑے علم“ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

ہم نے اپنے زمانہ ¿ طالب علمی میں بچوں کے رسالے ”آنکھ مچولی“ میں کام کیا ہے۔ وہاں اکثر بچوں کے ایسے خطوط آتے تھے جن میں بچے بتاتے تھے کہ ہمارے والد یا والدین ہم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں‘ وہ ہمیں مہنگے اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں‘ وہ ہمیں بہترین لباس اور بہترین غذا مہیا کررہے ہیں مگر وہ ہمیں پانچ یا دس روپے کا رسالہ خرید کر نہیں دیتے کیونکہ وہ اسے سرمائے کا ضیاع اور رسالے کے مطالعے کو فضول سرگرمی سمجھتے ہیں۔ وہ ہم سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے والدین کو سمجھائےں‘ انہیں بتائیں کہ رسالہ پڑھنے سے ہمیں نقصان نہیں فائدہ ہوگا۔

زندگی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جو پڑھتا ہے وہی سوچتا ہے‘ جو سوچتا ہے وہی تخلیق کرتا ہے اور جو تخلیق کرتا ہے وہی قیادت کرتا ہے۔ مسلم دنیا کو پورے عالم کی قیادت کرنی ہے تو اسے شہر اور ٹاﺅن نہیں یونین کونسل کی سطح پر کتب خانے قائم کرنے ہوں گے اور ہمیں گھروں میں دوسری چیزوں کی طرح ایک چھوٹے سے کتب خانے کے لیے بھی جگہ نکالنی ہوگی۔ الکتاب کی تہذیب کتاب اور کتب خانے کی ضرورت اور محبت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔

شاہنواز فاروقی 

Post a Comment

0 Comments